علامہ تمنا عمادی 1888/1305 میں پھلواری شریف پٹنہ میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے اپنے خانوادے کے علماء سے کسب علم کیا ۔ ان کا آبائی تعلق جس خاندان سے تھا وہ تصوف سے وابستہ تھا تاہم علامہ تمنا عمادی نے کسب علم کے بعد جوانی ہی میں تصوف اور اس کے تمام مراسم کو ترک کردیا ۔ ان کے خیال میں موجودہ تصوف کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ سراسر ضلالت و گمراہی ہے ۔
علامہ تمنا کی بلند ادیب و شاعر بھی تھے ۔ انہیں اردو ، عربی اور فارسی پر یکساں عبور حاصل تھا ۔ وہ ان تینوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے اور تینوں زبانوں کے صاحب دیوان شاعر تھے ۔
ان کی علمی زندگی بڑی متنازعہ تھی ۔ ان کی زندگی میں بڑے فکری انقلابات آئے ۔ عام طور پر انہیں لوگ منکر حجیت حدیث سمجھتے ہیں تاہم یہ خیال درست نہیں ۔ انما الاعتبار بالخواتیم کا اصول پیش نظر رہے ۔ انہوں نے آخری عمر میں حدیث کی حجیت کو تسلیم کر لیا تھا ۔
علامہ تمنا عمادی نے متعدد کتابیں لکھیں ۔ ان کی مشہور کتابوں میں
’’ الطلاق المرتٰن ‘‘
’’ امام زہری ‘‘
’’ امام طبری ‘‘
’’ انتظار مہدی و مسیح ‘‘
’’ کلالہ ‘‘
’’ القصیدۃ الزہرا ‘‘
وغیرہا شامل ہیں ۔
علامہ تمنا عمادی مجیبی پھلواروی اپنے ایک مضمون میں فرماتے ہیں
’’ اللہ کی کتاب اور محمد رسول اللہ و الذین معہ یہی تین ذریعے ہیں ہدایت کے ۔ یہ تینوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوسکتے اور نہ کوئی ان تینوں میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ کر راہ ہدایت پاسکتا ہے ۔ ‘‘
بحوالہ علامہ تمنا کا مضمون ’’ کتاب اللہ ، محمد رسول اللہ و الذین معہ ‘‘ مشمولہ ’’ نقوش ‘‘ رسول نمبر جلد اول صفحہ 358 دسمبر 1982ء
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی نے اپنے مضمون ’’ کیا علامہ تمنا عمادی منکر حدیث تھے؟ ‘‘ میں با دلائل ثابت کیا ہے کہ علامہ تمنا عمادی نے آخری دور میں حدیث کی حجیت کو تسلیم کر لیا تھا ۔ یہ مضمون مجلہ ’’ الواقعۃ ‘‘ کراچی میں جمادی الثانی 1432 / اپریل مئی 2012 میں شائع ہوچکا ہے ۔
علامہ تمنا عمادی کا انتقال 1972ء کو کراچی میں ہوا ۔